Poetry / Sad

Muzammil Shahzad

اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی

خدا جانے گریباں کس کے ہیں اور ہاتھ کس کے ہیں
اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی

مری خواہش ہے دُنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آؤں
بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی

خیالوں میں ہمیشہ اُس غزل کو گنگناتا ہوں
کہ جو کاغذ کے چہرے پر کبھی لکھی نہیں جاتی

وہی رستے، وہی رونق، وہی ہیں عام سے چہرے
نوید آنکھوں کی لیکن پھر بھی حیرانی نہیں جاتی,

Advertisement
· 1 Like · May 18, 2016 at 10:05
Category: sad
 

Latest Posts in poetry

Random Post

Sponored Video

New Pages at Social Wall

New Profiles at Social Wall

Connect with us


Facebook

Twitter

Google +

RSS